تقوی

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :قرآن مجید میں تقوی کا اطلاق 3معانی پر کیا گیا ہے ۔
1۔ڈر اور خوف 2۔ طاعت و عبادت 3۔ دل کو گناہوں سے پاک رکھنا اور یہ تقوی کا حقیقی معنی ہے۔
۔
بہر حال اللہ عزوجل کے احکامات کی بجا آوری اور ممنوعات سے روگردانی کر کے اسکی ناراضی و عذاب سے بچنے کام تقوی ہے ۔تقوی حق وباطل کے درمیان فرق وتمیز کرنے والی شے ہے ۔

تقویٰ انسانی زندگی کا سب سے قیمتی زیوراورسب سے زیادہ گراں قدر متاع ہے۔ اگر انسان بڑاہی دولت مند اور حیثیت ووقار کا مالک ہے لیکن وہ “لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ” کا اقرار نہیں کرتا تو جس طرح اس کی دولت مندی اس کی حیثیت، اس کا وقار، اس کا جاہ وجلال اور اس کی شان وشوکت کسی کام کی نہیں بالکل اسی طرح اگر کوئی “لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ” کا اقرار کرتا ہے لیکن اس کے دل میں تقوی کی جوت اور خوشبو نہیں، اس کے اندر تقویٰ کی روشنی نہیں جگمگاتی اور اس کے من میں خداترسی کا جذبہ نہیں تو وہ بھی اللہ کی نظر میں قابل احترام نہیں، حقیقت تویہ ہے کہ جس مسلمان کے اندر تقویٰ اور پرہیزگاری کی خوبی نہیں پائی جاتی، وہ صرف نام کا مسلمان ہے، کام کا نہیں ۔

ایسا کیوں؟ ایسا اس لىے کہ اگر مسلمان ایک جسم ہے تو تقویٰ اس کی روح ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جس جسم کے اندر روح نہیں وہ جسم کسی کام کا نہیں۔ اس طرح اگر کہاجائے کہ مسلمان تقویٰ کے بغیر لاشۂ بےجان ہے تو اس میں ذرابھی مبالغہ آرائی نہیں۔سب سے زیادہ جنت میں لے جانے والا عمل تقویٰ (پرہیزگاری) ہے

متقین وہ ہیں جنہوں نے معمولی شے پر قناعت کرکے رات کی تاریکی میں اپنے مولی کی بارگاہ میں قیام کیا ، محبوبِ حقیقی کی خاطر مشقتین برداشت کیں ، آفات کی کڑواہٹ پر صبر کیا ، دھوکہ دہی اور نا فرمانی سے بچتے رہے صبر پر استقامت کے ساتھ قائم رہے اور اپنا جان و مال اللہ کی راہ مین قربان کر دیا ۔

متقیوں کی جو صفات اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بیان فرمائی ہیں وہ صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ چوبیس گھنٹے ہر لمحہ ہمارے دل ودماغ میں یہ رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے، اور اسے ہمیں اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے، خواہ ہم مسجد حرام میں بیت اللہ کے سامنے ہوں یا گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ، بازار میں یا محفل میں لوگوں کے ساتھ۔